پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام ایران کے جوہری پروگرام سے کیوں جوڑا جاتا ہے؟

چار فروری 2004 کے دن پاکستان میں لوگوں نے ٹیلی ویژن کی سکرین پر ایک ایسا منظر دیکھا جو کسی دھماکے سے کم نہیں تھا اور اس دھماکے کی گونج پاکستان سمیت پوری دنیا میں سنائی دی۔

یہ دھماکہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے سرکردہ رہنما ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سرکاری ٹی وی پر اس وقت کیا تھا جب انھوں نے یہ اعتراف کیا کہ انھوں نے غیر قانونی طور پر جوہری راز دوسرے ممالک کو بیچے ہیں جس سے پاکستان کی حکومت بے خبر تھی۔

سوٹ اور ٹائی پہنے ہوئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سادہ انگریزی زبان میں اپنے اعترافی بیان میں کہا کہ ’تحقیقات سے ثابت ہوا کہ بہت سی رپورٹ شدہ سرگرمیاں ہوئیں ہیں اور یہ ابتدا میں میرے کہنے پر شروع کی گئیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’متعلقہ سرکاری حکام کے ساتھ اپنے انٹرویوز میں مجھے ثبوتوں اور نتائج کا سامنا کرنا پڑا اور میں نے رضاکارانہ طور پر تسلیم کیا کہ اس میں سے زیادہ تر سچ اور درست ہیں۔‘

’میرے پیارے بھائیو اور بہنوں، میں نے اپنے گہرے افسوس اور غیر مشروط معذرت کرنے کے لیے آپ کے سامنے پیش ہونے کا انتخاب کیا۔ میں یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حکومت کی طرف سے ان سرگرمیوں کے لیے کبھی بھی کسی قسم کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔‘

اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ان کے اپنے ہی گھر میں نظربند کروا دیا اور ان کا رابطہ باہر کی دنیا سے منقطع کر دیا گیا لیکن پھر بھی دنیا میں پاکستان اور ڈاکٹر قدیر شہ سرخیوں میں رہے۔

ٹائم میگزین نے 14 فروری 2004 کو اپنے کوور پر ڈاکٹر قدیر کی تصویر کے ساتھ سرخی لگائی ’مرچنٹ آف مینس‘ یعنی ’خطروں کا سوداگر۔‘

ایسی ہی خبریں دنیا بھر میں شائع ہوئیں۔

لیکن پاکستان میں ان کے بیان پر سوالات اٹھے اور یہ سوال بھی بار بار اٹھتا رہا کہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنا اہم سائنسدان اتنے لمبے عرصے تک جوہری راز اور ٹیکنالوجی بیچتا رہے اور ملک میں کسی کو بھی نہ پتہ چلے، خصوصاً پاکستان فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کو۔

چار سال بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے اس اعترافی بیان کے بارے میں گارڈین اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے یہ سب ایک کاغذ سے پڑھا جو ان کو ’تھمایا گیا تھا۔‘

واضح رہے کہ ڈاکٹر قدیر پر الزام تھا کہ انھوں نے ایک خفیہ نیٹ ورک کے ذریعے ایران، شمالی کوریا اور لیبیا کو ایٹمی راز بیچے اور ان کے ایٹمی پروگرام میں مدد کی۔

ایران، شمالی کوریا اور لیبیا

اس کہانی کا آغاز تو 1990 کی دہائی میں ہی ہو چکا تھا۔ بی بی سی کی دسمبر 2004 میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق برطانوی خفیہ ادارے اور امریکی سی آئی ای 1990 کے اواخر میں ڈاکٹر خان کے خفیہ نیٹ ورک میں رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور ان ایجنسیوں نے کئی آپریشن کیے اور اپنے ایک افسر کو اس نیٹ ورک میں جگہ دلائی۔

اسی خبر کے مطابق دیگر ذرائع اور برطانوی انٹیجینس ہیڈکوارٹر کی مدد سے انھیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خریداروں، جعلی کمپنیوں، مالی فراہمی اور لیبارٹریوں کے جال کا پتہ چلا۔

جیسے جیسے یہ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر خان نے ایک بین الاقوامی نیٹ ورک تیار کیا ہے جو ایٹمی ہتھیاروں کے لیے آلات فراہم کر رہا ہے، برطانیہ کی جوائنٹ انٹیلیجنس کمیٹی میں اس موضوع پر سنہ 2000 کے آغاز سے تشویش کا اظہار کیا جانے لگا۔

لیکن اس معاملے کی سب سے اہم کڑی دسمبر 2003 میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور برطانوی انٹیلیجنس ایجنسی ایم آئی سکس کے افسران کو لیبیا کے حکام سے ملی جب لیبیا نے اپنے جوہری پروگرام کو ترک کرتے ہوئے خاکی لفافوں میں ایٹمی ہتھیاروں کے ڈیزائن ان افسران کو تھما دیے تھے۔

ان معلومات کے مطابق ان ڈیزائنز کے علاوہ جوہری پروگرام سے متعلقہ پرزہ جات پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے مہیا کیے تھے اور یوں امریکہ کو ایک اہم جواز مل گیا کہ وہ پاکستان پر زور دے کہ وہ عبدالقدیر خان کے خلاف کارروائی کرے۔

پاکستانی حکومت کا ’اعتراف‘

مارچ 2005 میں اس وقت کے پاکستانی وزیر اطلاعات شیخ رشید نے بھی اعتراف کیا تھا کہ ڈاکٹر قدیر خان نے ایران کو جوہری ٹیکنالوجی دی تھی لیکن حکومت کو اس لین دین کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب پاکستانی حکومت کے کسی نمائندے نے ایسا اعتراف کیا۔

شیخ رشید احمد نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو ایک ٹیلی فون انٹرویو میں بتایا کہ ’ڈاکٹر عبدالقدیر نے ایران کو کچھ سینٹری فیوجز دیے تھے‘ اور ’انھوں نے اپنی ذاتی حیثیت میں ایران کی مدد کی اور حکومت پاکستان کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔‘

اکتوبر 2021 میں شائع ہونے والی بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران کی نطنز فیسیلیٹی میں سینٹریفیوج پروگرام کا قیام کافی حد تک ان ڈیزائنز اور مٹیرئیلز کی بنیاد پر کیا گیا نظر آتا ہے جو ابتدائی طور پر پاکستانی نیوکلئیر سائنسدان ڈاکٹر قدیر خان کے نیٹ ورک نے ایران کو سپلائی کیے تھے۔

اسی رپورٹ کے مطابق ایک ملاقات میں عبدالقدیر خان کے نمائندوں نے ایران کو ایک ایٹمی پروگرام کی تیاری میں استعمال ہونے والے مواد اور اجزا کی ایک فہرست فراہم کی تھی جس میں قیمتیں بھی درج تھیں اور ایرانی حکام اس کے مطابق مال کا آرڈر دے سکتے تھے۔

22 دسمبر 2004 کو شائع ہونے والی الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ نے ان الزامات پر ردعمل میں کہا کہ انھوں نے کچھ ڈیلرز سے سامان ضرور خریدا تھا لیکن ’وہ سامان کہاں سے آیا تھا، اس کے بارے میں ہم نہیں جانتے۔‘ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایران کا جوہری پروگرام پرامن ہے اور وہ ایٹم بم بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔

یاد رہے کہ نطنز ایران میں یورینیئم کی افزودگی کا ایک اہم مقام ہے، جو تہران سے تقریباً 250 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے جسے حال ہی میں اسرائیلی حملوں میں نشانہ بھی بنایا گیا، جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فروری 2007 سے کام کر رہا تھا۔

اس کی حالیہ صورت حال واضح نہیں تاہم امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیل دونوں کا دعوی ہے کہ ایران کی ایٹم بنانے کی صلاحیت کو ختم کر دیا گیا۔

تاہم حملے سے قبل معلومات کے مطابق یہ سہولت تین بڑی زیر زمین عمارتوں پر مشتمل تھی، جو 50 ہزار سینٹری فیوجز کو چلانے کی صلاحیت رکھتی تھی تاہم حالیہ امریکی اور اسرائیلی حملوں تک وہاں تقریباً 14 ہزار سینٹری فیوجز نصب تھے، جن میں سے تقریباً 11 ہزار کام کر رہے ہیں۔

نطنز ماضی میں بھی سائبر حملوں اور تخریب کاری کا نشانہ بن چکا ہے ور خیال ہے کہ وہ بھی امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ کارروائیاں ہی تھیں۔

البرادی کا انٹرویو اور عبدالقدیر خان پر الزامات

ایٹمی پروگرامز کی مانیٹرنگ کرنے والی بین الاقوامی ادارے آئی اے ای اے کے اس وقت کے سربراہ محمد البرادی نے اپنے ایک بیان میں ڈاکٹر قدیر پر انگلی اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے علم میں ہے کہ کم از کم 30 ممالک میں 30 کے قریب کمپنیاں غیر قانونی سرگرمیوں کے اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں جس کے سی سی ای او ڈاکٹر قدیر خان ہیں۔

یہ ایک بہت بڑا الزام تھا اور ڈاکٹر قدیر اپنی عمر کے آخر تک اس کی تردید کرتے رہے لیکن انھوں نے کبھی بھی حتمی طور پر یہ نہیں بتایا کہ اصل میں ہوا کیا تھا۔

ستمبر 2004 کو بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹالک میں البرادی نے اس حوالے سے میزبان ٹم سبیسٹیئن کے کچھ سوالوں کے جواب کچھ اس طرح سے دیے۔

ٹم: تیس ممالک سمیت بہت سے ایسے ممالک جنھیں آپ پہلے سے نہیں جانتے تھے؟

البرادی: نہیں، تمام کمپنیاں نہیں جانتی تھیں کہ وہ اس غیر قانونی سمگلنگ میں ملوث تھیں۔ اگر آپ سٹیل برآمد کر رہے ہیں، اگر آپ مقناطیس برآمد کر رہے ہیں، تو اس کا بہت زیادہ دوہری استعمال ہو سکتا ہے، اس لیے وہ نہیں جانتے تھے کہ آخر کار یہ ایران یا لیبیا پہنچ رہا ہے۔

ٹم: لیکن ان کے کلائنٹس کا کیا ہوا؟ عبدالقدیر خان کے کلائنٹس، ان کے ساتھ خریداری کرنے والے ممالک؟

البرادی: ہم دوبارہ کوشش کر رہے ہیں، ہم اور بہت سی دوسری انٹیلیجنس ایجنسیاں جو ہمارے ساتھ کام کر رہی ہیں، اس بات کی شناخت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ آیا کوئی اور کلائنٹ موجود ہیں۔ ہم ابھی تک وہاں نہیں پہنچے۔

ٹم: آپ نے خود اس شخص (ڈاکٹر قدیر) سے بات کیوں نہیں کی؟

البرادی: ہمیں پاکستان نے ان سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی۔

ٹم: کیا مطلب، اجازت؟ جنرل مشرف ریکارڈ پر ہیں کہ انھوں نے کہا ہے کسی نے ہم سے ان سے سوالات کرنے کی اجازت نہیں مانگی۔

البرادی: نہیں، میرے خیال میں ہم ان سے سوال کرنے میں بہت خوش ہوں گے لیکن۔۔۔

ٹم: کیا آپ نے ان سے پوچھ گچھ کرنے کا کہا؟

البرادی: میرے خیال میں ہم نے کہا۔

ٹم: لیکن وہ کہتے ہیں کہ آپ نے ایسا نہیں کیا جو بہت غیر معمولی بات ہے، ہے ناں؟

البرادی: میں یقین سے نہیں کہہ سکتا، میرے خیال میں ہم ان سے بات کرنے کے لیے کہتے رہے ہیں۔

ٹم: کیا آپ مجھے واضح طور پر نہیں بتا سکتے کہ آئی اے ای اے نے ان کا انٹرویو کرنے کا کہا؟

البرادی: جہاں تک میں جانتا ہوں ہمارے لوگوں نے پوچھا۔

ٹم: اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو یہ ایک بہت بڑا خلا ہوتا، ہے ناں؟

البرادی: میں آج اپنے پاکستانی دوستوں کو بتا سکتا ہوں کہ اگر وہ ایسا کر سکتے ہیں تو میں کل ہی خوشی سے ایک ٹیم بھیج دوں گا۔ بالکل یہ بہت بڑا خلا ہے لیکن۔۔۔

ٹم: یہ وقت ہے کہ آپ اس کے لیے پوچھیں؟

البرادی: جہاں تک مجھے علم ہے ڈاکٹر قدیر خان نے آج تک کسی غیر پاکستانی سے بات نہیں کی، جو کہ واضح طور پر کوئی بہت اچھی بات نہیں۔ یہ ہمارے لیے بہت اچھا ہو گا کہ اگر ہم ان سے براہ راست بات کریں۔

ٹم: شام، سعودی عرب، کیا وہ بھی کلائنٹ تھے؟

البرادی: ہم نے اس کے کوئی اشارے نہیں دیکھے۔ میرا مطلب ہے کہ ہم نے ایسے کوئی اشارے نہیں دیکھے کہ شام کلائنٹ رہا ہو، سعودی عرب کلائنٹ رہا ہو۔ درحقیقت ہم نے شام کا دورہ کرنے کے لیے ایک ٹیم بھیجی تاکہ وہ ان سے ان کی تمام جوہری سرگرمیوں پر بات چیت کر سکے۔ ہم نے کوئی اشارہ نہیں دیکھا۔ ہم ہمیں ملنے والی ہر انفارمیشن پر کارروائی کرتے ہیں۔ ہمیں کوئی خاص معلومات نہیں ملیں۔

ٹم: لیکن اس معاملے میں ایسا نہیں لگتا کہ آپ ضروری حد تک متحرک تھے؟

البرادی: اوہ، ہم بالکل متحرک ہیں لیکن میں شام نہیں جا سکتا اور ساری جگہوں پر جا کر کہتا پھروں کہ کیا آپ نے ڈاکٹر قدیر خان سے کچھ خریدا؟ مجھے کچھ معلومات، کسی لیڈ کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس ایک بھی ایسی اطلاع نہیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ کسی دوسرے ملک نے ڈاکٹر قدیر خان سے کچھ خریدا۔ اگر ہمارے پاس ہو، تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس پر راتوں رات کارروائی کریں گے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ایران کی مدد سے انکار

ڈاکٹر قدیر بہت تھوڑا عرصہ نظر بند رہے۔ سنہ 2012 میں ڈاکٹر قدیر نے ایک سیاسی جماعت، تحریک تحفظ پاکستان، بھی بنائی جسے انتخابات میں بری طرح شکست ہوئی اور ایک سیٹ تک نہ ملی۔

اسی دوران انھوں نے بہت عرصے کے بعد کچھ صحافیوں کو انٹرویوز بھی دیے جس میں وہ اپنے اعترافی ٹیلی ویژن بیان سے انکاری ہوئے اور کسی قسم کی غیر قانونی سرگرمی سے انکار کیا۔

ایک بین الاقوامی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے صاف کہا کہ ان کا پاکستان کے علاوہ کسی ملک کے کسی قسم کے جوہری پروگرام سے تعلق نہیں اور خصوصاً ایران کے حوالے سے ان کا موقف تھا کہ ’یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایران جو کہ این پی ٹی یعنی نان پرالیفریشن ٹریٹی یا جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ معاہدہ کا ممبر ہے اور ہمیشہ سے کہتا رہا ہے کہ وہ بم بنانا نہیں چاہتا وہ کسی کی مدد سے بم بنا سکتا ہے۔‘

انھوں نے اسے اسی طرح کا ’پروپیگینڈا‘ کہا جس طرح کا عراق سے متعلق کیا گیا تھا ’کیونکہ ایران این پی ٹی کا سگنیٹری ہے اس لیے آئی اے ای اے کبھی بھی، کسی بھی وقت اس کے جوہری پروگرام کا معائنہ کر سکتی ہے’، اس لیے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ وہ بم بنا رہا ہے۔‘

شمالی کوریا کی جوہری صلاحیت کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ وہ کئی دہائیوں سے چین اور روس کے کیمپ کا حصہ ہیں، ’بم بنانے کے لیے اسے کسی اور ملک کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔‘

اس الزام پر کہ لیبیا ان کے بیچے ہوئے رازوں اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے جوہری بم بنانے کی کوشش کر رہا ہے، ڈاکٹر قدیر کا جواب تھا کہ ’جو ملک سائیکل نہیں بنا سکتا وہ جوہری بم کس طرح بنائے گا۔‘