خواجہ سرا کا ڈی این اے ، ایف آئی آر میں دفعہ کون سی لگائی جائے؟

آج ایک اہم سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ تیسری جنس سے متعلقہ مقدمات کو کس پلڑے میں رکھا جائے گا؟ ان پر مردوں کے قوانین لاگو ہوں گے یا عورتوں کے؟ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی خواجہ سرا کے ریپ کے خلاف ایف آئی آر کاٹی گئی ہے۔ اس سے پہلے تیسری جنس کے لوگ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی شکایات تھانے تک لے کر تو گئے لیکن آج تک ایف آئی آر نہ کٹ سکی۔ معاملہ دھونس دھمکی اور ایک سو روپے سے ہزار روپے تک لین دین سے حل ہو جاتا تھا۔ بس خواجہ سرا کی عزت کی قیمت اتنی ہی ہوتی ہے کیونکہ ایسی صورتحال میں ان کے گرو بھی قتل، اغوا، تیزاب پھینکے جانے کی دھمکیوں کے ڈر سے ان کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی خواجہ سرا کے ساتھ ہونے والے ریپ کی ایف آئی آر کاٹی گئی ہے۔

نومی اور جولی کو فیصل آباد میں مانی اور شانی نے گینگ ریپ کا نشانہ بنایا۔ ان کو ان ہی کے کوارٹر میں بند کر کے پوری رات جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ دونوں ملزمان پہلے بھی کئی مرتبہ ایسے جرائم میں ملوث پائے گئے لیکن پکڑ میں نہ آئے۔

جب یہ دونوں اپنا میڈیکل ایگزامینیشن کرانے ڈسٹرکٹ ہسپتال پہنچیں تو ڈاکٹر ( میڈیکل ایگزامنر) کا کہنا تھا کہ تم لوگ یہاں کیا کرنے آئے ہو۔ تمھارے ساتھ یہ کوئی پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ تم لوگ تو بنے ہی اس کام کے لئے ہو۔ اس پر جولی نے کہا اچھا تمھارے خاندان میں کسی کا ریپ ہوا ہے؟ تو کیا تم تب بھی یہی کرو گے؟ جس پر ڈاکٹر شدید غصے میں آگیا اور بولا۔ اچھا ٹیسٹ کی رپورٹ تو میرے پاس ہی آنی ہے اب مقدمے کا فیصلہ میرے ہاتھ میں ہے۔

تھانے کے ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ یہ تو ان کے ساتھ ہوتا ہی رہتا ہے اب اس پر پرچہ تھوڑا ہی کٹتا ہے۔ یہ لوگ پیسے لے کر معاملہ رفع دفع کریں۔

ٹرانس جینڈر کے حقوق کے لئے FDI کے تحت اس کیس کو لے کر آگے بڑھنے والی عظمی یعقوب، جولی اور نومی کو لے کر ڈی این اے کی غرض سے لاہور میں موجود پنجاب فرانزک لیبارٹری پہنچیں تو گیٹ پر موجود محافظوں نے یہ کہہ کر مذاق اڑایا کہ غضب خدا کا اب ہیجڑے بھی ڈی این اے کرانے آئیں گے۔ وہاں کے اسٹاف نے بتایا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ہم کسی خواجہ سرا کے ریپ کیس میں ڈی این اے کر رہے ہیں۔

یہ اپنی نوعیت کا پہلا انوکھا کیس ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس مقدمے پر دفعہ 375 لگانا چاہئیے یا دفعہ 377 ۔ ؟ ریپ کا کیس عزت، ناموس، چادر اور چار دیواری کا معاملہ ہوتا ہے۔ دفعہ 375ریپ سیکشن ہے ۔ اس جنس سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے آپ کو عورت کے زمرے میں شمار کرتے ہیں اور خود کو عورت کہلوانا ہی پسند کرتے ہیں۔ اسی لئے ان کو Trans Woman کہا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کی رولنگ کے مطابق اس جنس کو یہ حق حا صل ہے۔ اس طرح ان کو یہ ریپ کیس دفعہ 375 کے تحت درج کروانے کا حق حاصل ہے۔ کیونکہ یہ ایک مرد کی مرد کے ساتھ نہیں بلکہ ایک مرد کی عورت کے ساتھ زیادتی تسلیم ہوتی ہے۔ لیکن پولیس نے دفعہ 377 کا کیس بنایا ہے جو کہ غیر فطری تعلق پر عائد ہوتی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انکی نظر میں یہ ریپ تسلیم نہیں ہوتا کیونکہ یہ مرد کا مرد سے تعلق بنتا ہے جو کہ دونوں فریقین کی مرضی سے بنتا ہے۔ گویا تیسری جنس کے کسی بھی فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے اوپر جنسی زیادتی کے کیس کو دفعہ 375 کے تحت درج کروا سکے۔

یہاں پر کچھ سوال پیدا ہوتے ہیں۔ کیا ہمارے قوانین میں خواجہ سراکے حوالے سے قوانین موجود نہیں؟ کیا اس بات پر کبھی دھیان نہں دیا گیا کہ اگر تیسری جنس کے افراد کو ہم قانونی طور پر یہ حق دیتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو Transgender Woman شمار کرے تو پھر ان کا مقدمہ دفعہ 375 کے تحت کیوں درج نہیں ہو سکتا؟ آ خر ان پر دفعہ 377 لگانے کی ضد کیوں کی جا رہی ہے؟ اسطرح تو 377 سپریم کورٹ کو چیلنج کر رہا ہے۔

معاشرے کی سب سے بے ضرر مخلوق ، چوری نہیں کرتے۔ ڈاکہ نہیں ڈالتے۔ اغواء یا قتل میں ملوث نہیں پائے جاتے۔ کسی کو دھوکہ نہیں دیتے۔ گالم گلوچ نہیں کرتے۔ مار دھاڑ پر نہیں اترتے۔ دھتکارے جانے پر بھی اپنا غصہ دوسروں پر ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ غلیظ القابات اور فحش اشاروں کے باوجود لوگوں میں خوشیاں بانٹتے ہیں۔ شادیوں میں گیت گاتے ہیں۔ ڈھولک بجاتے ہیں۔ دوسروں کی خوشی پر ناچتے ناچتے بے حال ہو جاتے ہیں۔ کسی کے گھر نو مولود پیدا ہو جائے تو اسکی بلائیں لیتے نہیں تھکتے۔ یہ دوسروں کی خوشیوں سے اپنی روزی کشید کرتے ہیں۔ گویا ان کے رزق کا دارومدار آپ کے گھر کی خوشیوں پر منحصر ہے۔

یہ لوگ اپنی زندگیوں کے کوڑے دان سے اٹھتی بدبو کو زرق برق کپڑوں اور چہرے پر ڈھیروں میک اپ ، ہونٹوں پر سرخی پوت کر دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میک اپ کی تہوں کے نیچے اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہو پاتاکہ کوئی خواجہ سرا کتنے دن کا بھوکا ہے؟ اس نے دو مہینے سے اپنے کمرے کا کرایہ ادا کیا یا نہیں؟ اس سب کے باوجود ہم ان کو خود سے ہوئی زیادتی کا مقدمہ درج کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔

(مقدمے کی درست دفعات کا اندراج تو بعد کی بات ہے، یہاں تو ابھی یہ ہی طے نہیں ہو پایا ہے کہ گولیوں سے چھلنی خواجہ سرا کو اگر ہسپتال لے جایا جائے تو کیا اسے مردانہ وارڈ میں رکھ کر ابتدائی طبی امداد دی جائے گی یا زنانہ وارڈ میں۔ پشاور میں ایسے دو واقعات ہو چکے ہیں جن میں سے ایک میں خواجہ سرا رمشا ہسپتال کی راہداری میں کئی گھنٹے پڑے رہنے کے بعد دم توڑ گیا تھا۔ مدیر)۔