اس صاحب کا تعلق باجوڑ کے تحصیل ماموند ایراب سے ہے

باجوڑ کی قیامت: ایک باپ، تین جنازے، اور ایک سوال — آخر ہمارا قصور کیا ہے؟
تحریر: مصباح الدین اتمانی
یہ واقعہ خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ کے تحصیل ماموند کے علاقے “ایراب” سے تعلق رکھنے والے ایک غمزدہ شخص کا ہے۔ ان کی زندگی محض ایک دن میں یکسر بدل گئی — ایک ایسا دن جو ہر ذی شعور انسان کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔
گزشتہ دنوں ان کے گھر پر ایک گولہ آ گرا، جس کے نتیجے میں ان کی بیوی، ایک کمسن بیٹا اور ایک چھوٹی سی بیٹی شہید ہو گئے۔ آج جب ان تینوں کی جنازہ گاہ میں صفیں بچھی تھیں، وہ بوڑھا باپ اپنی بیوی کے جنازے کے سرہانے کھڑا تھا، اور اس کی زبان سے نکلنے والے الفاظ ہر آنکھ کو نم کر رہے تھے۔
“جن کے لیے فکر تھی، آج وہ میرے سامنے کفن میں لپٹے ہیں”
وہ کہنے لگا:

“میری بیوی پہلے سے شدید بیمار تھی، میں انہیں علاج کے لیے پشاور لے جا رہا تھا۔ راستے میں بار بار یہی خیال آتا رہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ واپس نہ آ سکے۔ اگر خدانخواستہ کچھ ہو گیا تو میرے بچوں کا کیا ہوگا؟ وہ اپنی ماں کے بغیر کیسے جییں گے؟”

لیکن وہ کہتا ہے کہ اللہ نے ان کی دعائیں سن لیں۔ ان کی بیوی پشاور سے علاج کے بعد صحت یاب ہو کر واپس آ گئیں۔ چند دن سکون کا سانس لیا، خوشیاں منائیں، لیکن وہ خوشی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔
اچانک شروع ہونے والا آپریشن، اور ایک خونی حملہ
اسی دوران علاقے میں ایک بار پھر آپریشن شروع ہو گیا۔ اور پھر وہ لمحہ آیا جو اس شخص کی پوری دنیا اجاڑ گیا — ان کے گھر پر ڈرون سے حملہ کیا گیا۔
اس حملے میں ان کی اہلیہ، ننھا بیٹا اور ایک بیٹی موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ حملہ اس قدر شدید تھا کہ لاشیں تک شناخت کے قابل نہ رہیں، جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔
جنازے کے موقع پر وہ شخص اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا:
“جس بیوی کی بیماری کی وجہ سے میں ان بچوں کے لیے پریشان تھا، آج وہی بچے اپنی ماں کے دائیں اور بائیں کفن میں پڑے ہیں۔ اب میں کیا کروں؟”

یہ کہتے ہوئے وہ زار و قطار رونے لگا۔ آس پاس موجود لوگ بھی خود پر قابو نہ رکھ سکے، فضا میں ایک خاموش ماتم بکھر گیا۔
ایک سوال جو پوری قوم سے ہے
یہ صرف ایک باپ کی کہانی نہیں، یہ پورے قبائلی علاقوں کی اجتماعی حالتِ زار کی نمائندگی کرتی ہے۔
اس بوڑھے شخص نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر فریاد کی:
“اللہ میرے وطن پر رحم کرے۔ ہم ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ ہر واقعہ قیامت سے بڑھ کر ہے۔ ہر دن ایک نئی لاش، ایک نیا جنازہ، ایک اور برباد ہوا گھر۔ بے گناہ لوگ شہید ہو رہے ہیں، باپردہ مائیں اور بہنیں خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے ہمیں؟”

یہ سوال محض اس شخص کا نہیں، ہر قبائلی، ہر متاثرہ فرد، ہر درد مند دل رکھنے والے پاکستانی کا سوال ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ان سوالات کے جواب دینے والا کوئی نہیں۔
آخر کب تک؟
یہ وقت ہے کہ ریاست اور متعلقہ ادارے سنجیدگی سے ان مظلوموں کی فریاد سنیں۔ اگر ریاست اپنے شہریوں کی جان و مال کا تحفظ نہیں کر سکتی تو پھر اس نظام کا جواز کیا رہ جاتا ہے؟
یہ وہ وقت ہے جب ہمیں صرف مذمتی بیانات سے آگے بڑھنا ہوگا۔ جب تک بے گناہوں کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا، جب تک ان علاقوں میں امن، تعلیم اور بنیادی انسانی حقوق کو یقینی نہیں بنایا جاتا — تب تک یہ آہیں، یہ جنازے، اور یہ سوالات ختم نہیں ہوں گے۔