“فرحان نے بتایا تھا کہ اُس کے ساتھ زیادتی کی کوشش ہو رہی ہے… میں نے مہتمم سے کہا کہ بچے کو کچھ نہ کہنا، ہم فیس بھی بڑھا دیں گے… مگر شاید اسی وقت وہ آخری بار چیخ رہا تھا” مقتول فرحان کے والد ایاز کا بیان
فرحان صرف 14 برس کا تھا۔ چمکتے خواب، کھیلنے کی ہنسی، اور گھر کی رونق۔ ماں باپ نے سوچا مدرسہ اسے دنیا و آخرت دونوں دے گا، مگر مدرسے کے در و دیوار کچھ اور ہی سناتے ہیں۔
جس روز فرحان کی طبیعت خراب ہوئی، اُس روز اُس کے والد نے مہتمم کو ویڈیو کال کی۔ مہتمم نے تسلی دی، جھوٹی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ’سب خیریت ہے، بچہ مطمئن ہے۔‘ مگر اس کے چہرے پر پڑھی گئی یہ تسلی کچھ چھپا رہی تھی۔ والد نے دل کو تسلی دی، حالانکہ بیٹا اُس لمحے چیخ رہا تھا، خاموشی میں۔ ایاز کہتے ہیں، ’میں نے کہا بچہ تھوڑی بہت چھیڑ چھاڑ کرتا ہے، مگر پھر سنبھل جاتا ہے… شاید اسی وقت اُن درندوں نے اُسے مار ڈالا تھا۔‘ آنکھوں میں نمی اور آواز میں درد لیے وہ بولے، ’میرے فرحان کو پانی تک نہیں دیا گیا… وہ پیاسا مار دیا گیا“
فرحان کے چچا نے جب مہتمم کو فون پر بتایا کہ بچے نے ناپسندیدہ رویے کی شکایت کی ہے، تو مہتمم نے قسمیں کھا کر سب الزامات جھٹلا دیے۔ چچا کے مطابق، ’مہتمم کا بیٹا بھی قسمیں کھا رہا تھا… وہی جس پر میرے بھتیجے کو نازیبا مطالبات کرنے کا الزام ہے۔‘ فرحان کے ساتھ پڑھنے والے ایک عینی شاہد نے بتایا کہ واپسی پر اساتذہ نے فرحان کو شدید مارا اور ایک الگ کمرے میں بھی تشدد جاری رکھا۔ جب اُسے پانی دیا گیا تو اُس نے تھوڑا سا پانی پیا، اپنا سر ساتھی کی گود میں رکھا اور خاموش ہو گیا۔
یہ محض ایک بچے کی موت نہیں، ایک خواب کی، ایک نسل کی، اور والدین کے یقین کی موت ہے۔ تین سال سے فرحان اس مدرسے میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ ہر ماہ پانچ ہزار روپے دے کر والدین یہ سمجھتے رہے کہ ان کا بیٹا دین سیکھ رہا ہے۔ مگر مدرسے کی چھت تلے وہ ظلم سیکھ رہا تھا، مار سہہ رہا تھا، اور آخرکار خاموشی سے دم توڑ گیا۔
فرحان کے نانا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وہ راز بتایا جو دل چیر کر رکھ دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فرحان نے چند روز پہلے گھر آ کر صاف صاف کہا تھا کہ “میں وہاں نہیں رہ سکتا، کچھ لوگ نازیبا باتیں کرتے ہیں۔” لیکن اسے معمول کا بانہ سمجھا گیااور شاید قسمت نے بھی اُس دن لکھا تھا کہ فرحان واپس نہ آئے۔
احتجاج پھوٹ پڑا۔ عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ پوسٹرز اُٹھائے، آنکھوں میں آنسو، زبان پر ایک ہی صدا: “انصاف دو، یہ ظلم اور نہ ہو!” کالام سے مٹہ تک کی سڑکوں پر صرف انسان نہیں، بےحسی کے خلاف صدیوں کی فریاد گونجنے لگی۔
اب انتظامیہ حرکت میں آئی ہے۔ مدرسہ سیل ہو چکا ہے، گیارہ افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں، اور مرکزی کردار اب بھی فرار ہے۔ لیکن یہ گرفتاری، یہ تالے، کیا کسی ماں کا دل واپس لا سکتے ہیں؟ کیا کسی باپ کی راتیں سکون سے سو سکتی ہیں؟