رات کو فون اٹھا لیتے تو آج بچہ زندہ ہوتا۔۔ گٹر کا ڈھکن اور سرکاری مشینری دونوں غائب ! سندھ حکومت کی کارکردگی پر سوال کھڑے ہوگئے

گلشن اقبال نیپا چورنگی پر تین سالہ ابراہیم کی زندگی ایک کھلے مین ہول نے نگل لی، اور تقریباً پندرہ گھنٹے کی بے بسی کے بعد اس کی لاش نالے سے برآمد ہوئی۔ یہ سانحہ صرف ایک گھر کا نہیں ٹوٹا، پورا شہر، پوری سیاست اور سوشل میڈیا اس غفلت پر لرز اٹھا۔ اتوار کی رات والدین معمول کی خریداری کے لیے اسٹور پہنچے تھے، لیکن چند لمحوں کی بھاگ دوڑ نے ان کا واحد بیٹا ان کی نظروں کے سامنے اندھیرے میں چھین لیا۔ ریسکیو ٹیموں کا آنا جانا، کسی محکمے کا بروقت ردعمل نہ دینا، اور مشینری کا نہ ملنا اس بے حسی کو مزید کھول کر سامنے لے آیا۔

اس واقعے نے راتوں رات سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کے انتظامی ڈھانچے کو شدید تنقید کے گھیرے میں ڈال دیا۔ سوشل میڈیا سے لے کر سیاسی حلقوں تک ہر طرف غصہ نظر آیا۔ مفتاح اسماعیل نے اسے حکومت کی کھلی ناکامی قرار دیا، جبکہ عالمگیر خان نے شہر کو موئن جو دڑو جیسی حالت میں چھوڑنے کا طعنہ دیا۔ جماعت اسلامی کے منعم ظفر نے سوال اٹھایا کہ اختیارات کا دعویٰ کرنے والے صرف ڈھکن بھی فراہم نہیں کرسکے۔ دوسری طرف خاندان پوری رات دفاتر، فون نمبرز اور افسران کے درمیان مدد کی تلاش میں ٹھوکریں کھاتے رہے، لیکن کوئی دروازہ کھلنے کے بجائے بند ہوتا گیا۔ دادا کا کہنا تھا کہ ہر محکمہ کال سن کر خاموش ہو جاتا، یہاں تک کہ میئر کراچی کا فون بھی بند ملا۔ بچے کے دادا نے مزید بتایا کہ اگر ریسکیو آپریشن رات میں شروع کیا جاتا تو شاید ابراہیم آج زندہ ہوتا۔

پورا پاکستان اس دل سوز منظر کو دیکھ کر جل اٹھا، خاص طور پر وہ ویڈیو جس میں ابراہیم کی ماں سڑک پر بے بسی سے دہائی دے رہی تھی کہ کوئی اس کے بچے کو نکال لے۔ معید پیرزادہ نے اس پر تبصرہ کیا کہ پورا ملک ایک بڑے مین ہول جیسا بن چکا ہے، جبکہ دیگر صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے اس حادثے کو غفلت پر مبنی قتل قرار دیا۔ کراچی کی پہلے سے بگڑتی حالت پر بات کرتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا کہ شہر میں لاقانونیت، ٹوٹ پھوٹ، گندگی، جرائم اور بے ہنگم منصوبوں نے شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

دوسری جانب میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ یہ ایک برساتی نالے کا معاملہ ہے، اور ساتھ ہی دعویٰ بھی کیا کہ گزشتہ برس ہزاروں ڈھکن لگائے گئے تھے۔ تاہم استعفے کے سوال پر وہ برہم ہوگئے اور کہا کہ واقعے پر سیاست کی جارہی ہے۔ ادھر وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اس افسوسناک حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ طلب کرلی ہے، مگر اس سے پہلے بھی کئی سانحات تحقیقاتی فائلوں میں دب کر رہ چکے ہیں۔

یہ سانحہ کراچی والوں کے لیے ایک اور زخم بن گیا ہے، اس شہر میں جہاں اس سال کھلے مین ہول اور برساتی نالوں نے کم از کم بیس زندگیاں نگل لی ہیں، وہاں ابراہیم کی معصوم موت نے انتظامی غفلت کی ایک اور تلخ مثال سامنے رکھ دی ہے۔