

ملتان سے تعلق رکھنے والا ایک خوبرو نوجوان، وقاص رضا، جو ریئل اسٹیٹ کا کام کرتا تھا — اس نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ جانے سے پہلے صرف ایک جملہ فیملی کو بھیجا:
“میری ڈیڈ باڈی آفس سے آ کر لے جانا”
یہ خبر فیس بک پر دیکھی، دل دہل گیا…
کیوں؟ کیسے؟
یہ تو صرف اللہ جانتا ہے… مگر یہ واقعہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔


ہمارے معاشرے میں نوجوانوں کا ذہنی دباؤ، احساسِ تنہائی، ڈپریشن اور مایوسی مسلسل بڑھ رہی ہے۔
کئی خوبصورت چہرے اندر سے ٹوٹ چکے ہوتے ہیں — بس ہمیں نظر نہیں آتا۔
ہم اپنے بچوں کو ریاضی، سائنس، اردو، انگلش تو پڑھاتے ہیں…
مگر زندگی جینا نہیں سکھاتے۔


یہ کوئی “اضافی مضمون” نہیں بلکہ اصل تعلیم ہے۔
ہمیں سکھانا چاہیے:
مایوسی سے کیسے نکلیں؟
ڈپریشن سے کیسے نمٹیں؟
گرنے کے بعد دوبارہ کیسے اٹھیں؟
ناکامی کے بعد ہمت کیسے جمع کریں؟
اپنے جذبات کیسے کنٹرول کریں؟
مدد مانگنا کمزوری نہیں، ہمت ہے۔

ہم میں سے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ “جو نظر آئے وہی بیماری ہے”
مگر ذہنی بیماریوں کا دکھ چھپتا ہے — مسکراہٹوں کے پیچھے۔

اسی لیے ہمیں اپنے دوستوں، کولیگز، رشتہ داروں پر نظر رکھنی چاہیے۔






ہم سب کو زندگی سے جُڑنے کا سبق دینا ہوگا۔
اسکول، کالجز، یونیورسٹیز، میڈیا — سب کو مل کر ایک مشترکہ آواز بننا ہوگا:
“زندگی ختم کرنے کا نام نہیں…
زندگی لڑنے کا نام ہے!”
وقاص جیسے نوجوان اگر ہمارے سسٹم میں Life Skills سیکھتے، تو شاید آج زندہ ہوتے…

خاموش نہ رہیں
کسی قریبی سے بات کریں
کسی ماہرِ نفسیات سے رابطہ کریں
اور یاد رکھیں: یہ وقت گزر جائے گا… زندگی بہت قیمتی ہے۔
