اس نے پکڑے نہیں جانا تھا، مگر اپنی بدقسمتی کی وجہ سے یہ پکڑ میں آ گئی اور پھر۔۔۔

“اس نے پکڑے نہیں جانا تھا، مگر اپنی بدقسمتی کی وجہ سے یہ پکڑ میں آ گئی اور پھر…”

یہ صرف ایک جملہ نہیں، بلکہ ایک مکمل کہانی کا دروازہ ہے — ایک ایسی کہانی جو ہمارے معاشرے کے بہت سے چہروں کو بے نقاب کرتی ہے۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جسے ہم شاید ایک “غلطی کرنے والی” سمجھیں، لیکن درحقیقت یہ ایک پورا نظام ہے جو بار بار ایسے انجام پیدا کرتا ہے۔

کہانی کا آغاز

فاطمہ (فرضی نام) ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی ذہین، خوبصورت اور خوابوں سے بھرپور لڑکی تھی۔ بچپن ہی سے اس پر ذمے داریوں کا بوجھ تھا۔ والد کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا، اور ماں نے سلائی کڑھائی سے گھر چلانے کی ٹھان رکھی تھی۔ فاطمہ نے ہمیشہ چاہا کہ وہ کچھ بڑا کرے، ماں کا سہارا بنے، لیکن قسمت نے کچھ اور لکھا تھا۔

وہ لمحہ جب سب کچھ بدل گیا

فاطمہ سوشل میڈیا پر متحرک ہوئی۔ ایک اجنبی کی طرف سے پیغامات آنا شروع ہوئے۔ وہ باتوں میں اخلاقی لگتا تھا، تعاون کا وعدہ کرتا، اور “صرف دوستی” کا رشتہ چاہتا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ فاطمہ اس کی چکنی چپڑی باتوں کا شکار ہو گئی۔ پیسے کی لالچ، تنہائی، اور معاشرے کی عدم توجہی نے فاطمہ کو اس کی باتوں پر یقین کرنے پر مجبور کر دیا۔

اور پھر ایک دن…
جب فاطمہ نے اس پر بھروسا کرتے ہوئے اس سے ملنے کا فیصلہ کیا، وہ لمحہ اس کی زندگی کا موڑ بن گیا۔ اس ملاقات نے صرف اعتماد توڑا نہیں، بلکہ فاطمہ کو ایک ایسے گڑھے میں دھکیل دیا جہاں سے واپسی آسان نہ تھی۔

پکڑے جانا… اور پھر معاشرتی سزا

جب پولیس کے ہاتھ یہ معاملہ لگا، تو فاطمہ کو “گرفتار” کر لیا گیا۔ اس پر نہ کوئی باقاعدہ مقدمہ تھا، نہ کوئی سخت جرم، مگر ہمارے معاشرے نے فیصلہ پہلے ہی سنایا ہوا تھا۔

یہی وہ لمحہ تھا جب فاطمہ کی بدقسمتی نے اس کا ہاتھ پکڑا — یا شاید یہ اس معاشرے کی بدقسمتی تھی جو اپنی بیٹیوں کو سنبھالنے کے بجائے، انہیں گرا دینے پر تُلا ہوا ہے۔

سبق جو ہر فرد کو سیکھنا چاہیے

  1. والدین بچوں پر بھروسا رکھیں، مگر انہیں وقتاً فوقتاً سمجھاتے رہیں۔

  2. سوشل میڈیا پر اجنبیوں سے تعلقات کبھی بھی کسی خطرے سے خالی نہیں ہوتے۔

  3. معاشرہ صرف انگلی اٹھانے کا نہیں، سہارا دینے کا نام ہونا چاہیے۔

  4. اگر کوئی لڑکی غلطی کرتی ہے تو اسے مزید دھکیلنے کے بجائے، اصلاح کی راہ دکھائیں۔

✅ نتیجہ:

فاطمہ آج بھی کسی کونسلنگ سینٹر میں ہے۔ وہ افسوس کرتی ہے، وہ سیکھ چکی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے کچھ سیکھا؟
یا اگلی فاطمہ کو پھر سے ہم وہی سزا دیں گے — جو شاید اُسے کبھی ملی ہی نہ ہو، صرف ہم نے فرض کر لی ہو؟