قیامت خود بتائی گی قیامت کیوں ضروی تھی


فلسطینی علاقے خان یونس میں امدادی کارکنان کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے جمعے کو ایک حملے میں غزہ کی خاتون ڈاکٹر کے خاندان کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ڈاکٹر کے 10 میں سے نو بچے جان سے گئے ہیں۔
بچوں کے امراض کی ماہر ڈاکٹر علا النجار کے شوہر حمدی النجار اور بیٹا آدم اسرائیلی حملے میں واحد زندہ بچنے والے افراد ہیں جو خان یونس کے ناصر ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
علا النجار حملے کے وقت ناصر ہسپتال میں ڈیوٹی پر تھیں۔
روئٹرز کی جانب سے بچوں کی اموات اور حملے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر اسرائیلی فوج نے کہا کہ ’کل (جمعہ 23 مئی) کو اسرائیلی دفاعی فورسز کے ایک طیارے نے خان یونس کے علاقے میں ان مشتبہ افراد کو نشانہ بنایا جو اسرائیلی فوجیوں کے قریب واقع ایک عمارت سے کارروائی کر رہے تھے۔‘
اسرائیل نے مئی کے آغاز سے غزہ میں اپنی فوجی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ حماس کی عسکری اور حکومتی صلاحیتوں کا خاتمہ چاہتا ہے اور اکتوبر 2023 کو قیدی بنائے گئے باقی افراد کو واپس لانا اس کا مقصد ہے۔
حمدی النجّار کی بھانجی، سماح النجار کہتی ہیں کہ ’جب میری والدہ اپنے بھائی حمدی یحییٰ النجار سے فون پر بات کر رہی تھیں تو ایک دھماکہ ہوا اور پھر ایک دوسرا دھماکہ جو پہلے سے کہیں زیادہ زور دار تھا۔
’دوسرا دھماکہ بہت، بہت زور دار تھا۔ ہر طرف اور زیادہ، اور زیادہ کالا دھواں پھیل گیا۔ نہ سورج دکھائی دے رہا تھا، نہ بادل، یہاں تک کہ ہم آسمان بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’میری والدہ نے کہا کہ حمدی، حمدی، حمدی، حمدی۔ نہ حمدی رہے، نہ ان کے بچے، نہ ان کی بیوی۔ ان کی بیوی (ڈاکٹر علا عامر النجار) اس حادثے کی صبح ہسپتال میں تھیں۔

’میری ممانی ڈاکٹر علا عامر النجار، بچوں کی ڈاکٹر ہیں۔ وہ بچوں کا علاج کرتی ہیں، اور ایک لمحے میں ان کی اپنی بیٹیاں اور بیٹے ان کے ہاتھوں میں دم توڑ گئے۔ یحییٰ، سدرا، لقمان، سادین، ریوال اور جبران، سب کے سب ان کے ہاتھوں میں جان سے گئے۔ وہ ہسپتال سے نکلیں اپنے پیروں پر چلتے ہوئے، کزان النجار (جگہ کا نام) تک پہنچیں۔‘
حمدی کے بھائی علی النجار کا کہنا تھا کہ ’ہم ملبے میں تلاش کرتے رہے، یحییٰ سے آدم تک آوازیں دیتے رہے کہ ’جواب دو، چچا کو، کوئی ہے؟‘ لیکن ہمارے سوا وہاں کوئی نہیں تھا۔ بالکل ہمارے ساتھ، میرے کزن نے ٹائروں کو پنکچر لگانے کی تین یا شاید دو دکانیں کرائے پر لے رکھی تھیں۔
’آگ ٹائروں تک پھیل چکی تھی، اور سول ڈیفنس نے آگ بجھانے کے لیے پانی کا پائپ آگے بڑھایا کیوں کہ آگ کی وجہ سے گھر گرنے کا خطرہ تھا۔
علی النجار کہتے ہیں کہ ’ایک دکان ربڑ کے ٹائروں سے بھری ہوئی تھی۔ جب ہم آگ بجھانے کی کوشش کر رہے تھے، تو پہلی جلی ہوئی لاش دیکھ کر ہم صدمے میں آ گئے۔ انہوں نے فوراً آگ بجھانا جاری رکھا، اور ہم جلی ہوئی لاشیں نکالنے لگے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہم نے ان جلے ہوئے بچوں کو اٹھایا اور ناصر ہسپتال منتقل کیا۔ میں ڈاکٹر کو اپنے ساتھ لے گیا۔ وہ اب ایک طرف اپنے مرے ہوئے بچوں، دوسری طرف اپنے واحد زندہ بچ جانے والے بچے، اور شوہر جو زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں، کے درمیان پھنس گئیں ہیں۔ اللہ انہیں صبر دے اور ہمیں بھی۔‘