
جب جنرل مشرف صدرِ پاکستان تھے۔ ایک بار اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ کے دوران ملک کی معیشت اور عالمی دباؤ پر بات ہو رہی تھی۔ کچھ وزراء نے مشورہ دیا کہ “بین الاقوامی دباؤ کم کرنے کے لیے ہمیں اپنے کچھ قومی فیصلے نرم کرنے ہوں گے، ورنہ غیر ملکی امداد رک جائے گی۔”
یہ سن کر جنرل مشرف نے سخت لہجے میں کہا:
“پاکستان امداد پر نہیں، اپنی غیرت پر چلنا چاہیے۔ اگر ہم نے اپنے اصول بیچ دیے تو ترقی تو کیا، اپنی پہچان بھی کھو دیں گے۔”
پھر انہوں نے وہ جملہ کہا جو اُن کی سوچ کا خلاصہ تھا:
“میں نے فوجی وردی صرف عزت کے لیے پہنی ہے، طاقت کے لیے نہیں۔ میرا مقصد پاکستان کو مضبوط دیکھنا ہے — ایسا ملک جو کسی کے رحم و کرم پر نہ ہو۔”
اسی جذبے کے تحت اُنہوں نے معاشی اصلاحات، تعلیم، اور ٹیکنالوجی کے شعبوں پر خاص توجہ دی۔ اُن کے دور میں پاکستان میں موبائل اور انٹرنیٹ انقلاب شروع ہوا، غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھی، اور نوجوانوں کو نئی سمت ملی۔
ایک بار ایک تقریب میں جب اُن سے پوچھا گیا کہ “سر، آپ کو سب سے زیادہ کس چیز کی فکر رہتی ہے؟”
تو جنرل مشرف نے کہا:
“مجھے پاکستان کے عام آدمی کی فکر ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ایک عام پاکستانی باعزت زندگی گزار سکے — یہی میری سب سے بڑی خواہش ہے۔”