کہا جاتا ہے کہ چھوٹے بچوں کے صدمے سے والدین کی کمر ٹوٹ جاتی ہے اور ان کے دلوں پر ایک بوجھ آ جاتا ہے جو مرتے دم تک ان کے ساتھ رہتا ہے۔ اداکار راشد محمود نے ساری زندگی شوبز انڈسٹری کو دی ہے۔ انہوں نے سٹیج، ریڈیو اور ڈرامے کی دنیا میں ایک مثال قائم کی ہے۔
انہوں نے ریڈیو پاکستان سے بطور براڈ کاسٹر اپنے سفر کا آغاز کیا۔ انہوں نے پرائیڈ آف پرفارمنس بھی جیتا اور انہیں ان کی محنت کا صلہ ملا جب انہوں نے گزشتہ سال سرکار ٹیلی ویژن پر ماتم کیا۔ اسے روپے کا چیک ملا۔ 620 جس پر پوری انڈسٹری نے آواز اٹھائی۔
راشد محمود اپنے اکلوتے بیٹے اظہر کے آئیڈیل تھے۔ ان کا بیٹا بچپن سے ہی اعلیٰ مقام حاصل کرتا تھا۔ راشد محمود کا کہنا ہے کہ جب وہ رزلٹ والے دن اپنے بیٹے کے اسکول گئے تو پورے اسکول کو معلوم تھا کہ پہلی پوزیشن ان کے بیٹے کی ہی آئی ہوگی۔ وہ ایک بہت قابل بچہ تھا جس نے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور قطر ایئرویز میں بہت اچھی پوزیشن پر کام کرنا شروع کیا۔
اظہر ایک بہت ہی خوبصورت لڑکا تھا جسے ڈراموں اور ماڈلنگ کی دنیا نے بھی پیشکش کی لیکن اس نے کبھی قبول نہیں کیا۔ راشد محمود نے ایک بار ان سے کہا کہ ایک بار کرو لیکن انہوں نے کہا بابا میں نے آپ کو اس شعبے میں بہت محنت کرتے دیکھا ہے۔ میں ایسی جگہ نہیں جاؤں گا جہاں میری ملکیت نہ ہو۔
اظہر کا انتقال 26 سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے ہوا۔راشد محمود انہیں ایک دن پہلے ایئرپورٹ سے لے کر آئے اور دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔
اپنی موت کی شام اظہر نے بابا سے کہا کہ وہ نوکری چھوڑ دیں۔ جس پر راشد محمود نے کہا کہ میں آپ کے لیے کرتا تھا اور اب بھی صرف آپ کے لیے سوچتا ہوں۔ اظہر نے کہا کہ اب میں سب کچھ سنبھال لوں گا۔ وہ ابھی کہہ ہی رہا تھا کہ وہ راشد محمود کی گود میں گرا اور اسی وقت مر گیا۔
2013 کی اس رات راشد محمود کی زندگی ہمیشہ کے لیے ایک ایسی جگہ رک گئی جہاں سے وہ کبھی واپس نہ آسکے۔ اپنے جوان بیٹے کی موت کا غم اس کی سانسوں میں رہتا ہے۔